Login / Register

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق

2023-08-30 14:01:40

ہمارے لیے دعا کریں عمران اشرف کی طلاق کے بعد مداحوں سے درخواست

حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔ کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’خبردار! معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔‘‘
تحفظِ عزت و آبرو:
مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت و آبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیا جائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا، اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔ اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اور اس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔
عدالتی و قانونی تحفظ:
فوج داری اور دیوانی قانون و مقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یک ساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیر مسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تو اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے:
’’ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔‘‘ حضور کریمؐ کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپؐ نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا، مفہوم: ’’میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حق دار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔‘‘
مذہبی آزادی:
ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم و شعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔
قرآن حکیم میں واضح حکم دیا گیا، مفہوم: ’’دین کے معاملہ میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے، ہدایت گم راہی سے جدا ہوگئی۔‘‘
وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔
البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔
البتہ عبادت گاہوں کے اندر انہیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔ وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے مذہب میں بھی حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انہیں روکا جائے گا۔
خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔ ذمی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مذہبی درس گاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انہیں اپنے  لوگوں میں دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔
اسلامی ریاست ذمیوں کے پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بل کہ انہیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و مذہب پر عمل کریں۔ نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت کے جو طریقے ان کے مذہب میں جائز ہیں۔
انہیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی، خواہ وہ اسلامی قانون کی رُو سے حرام و ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جائز ہے، تو اسلامی ریاست انہیں اس سے نہیں روکے گی، بل کہ اسلامی عدالت ان کے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔
منصب و ملازمت:
اسلامی آئین سے وفاداری کی شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اہل ذمہ پالیسی ساز اداروں، تفویض وزارتوں اور ان مناصب پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں، جو اسلام کے نظامِ حکومت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، بقیہ تمام ملازمتوں اور عہدوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ذمیوں کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’ایک ذمی وزیر تنفیذ ہوسکتا ہے، مگر وزیر تفویض نہیں۔ جس طرح ان دونوں عہدوں کے اختیارات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے شرائط میں بھی فرق ہے۔ یہ فرق ان چار صورتوں سے نمایاں ہوتا ہے: پہلے یہ کہ وزیر تفویض خود ہی احکام نافذ کرسکتا ہے اور فوج داری مقدمات کا تصفیہ کرسکتا ہے۔
یہ اختیارات وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں۔ دوسرے یہ کہ وزیر تفویض کو سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا حق ہے، مگر وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وزیر تفویض تمام جنگی انتظامات خود کرسکتا ہے وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ وزیر تفویض کو خزانے پر اختیار حاصل ہے۔
وہ سرکاری مطالبہ وصول کرسکتا ہے اور جو کچھ سرکار پر واجب ہے اسے ادا کرسکتا ہے۔ یہ حق بھی وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں ہے۔ ان چار شرطوں کے علاوہ اور کوئی بات ایسی نہیں جو ذمیوں کو اس منصب پر فائز ہونے سے روک سکے۔‘‘
اسلامی خزانے سے غیر مسلم محتاجوں کی امداد:
صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰۃ و عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیر مسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء و مساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ مسلم حکم ران کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے گشت کے دوران ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا، آپؓ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا: ’’تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو۔‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میں یہودی ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: ’’گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔‘‘ یہودی نے کہا: ’’ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سالی کے مصائب کی وجہ سے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لائے اور جو موجود تھا، اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:
’’یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم! ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انہیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں۔ قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء و المساکین) میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غربائ۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔‘‘
معاہدین کے حقوق:
مذکورہ بالا حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیر مسلم رعایا، جو جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے، کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسلامی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط صلح کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
ان سے ایک سرمُو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول کریم ﷺ خود اس کے خلاف قیامت کے دن مستغیث ہوں گے۔
’’خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود (رسول کریم ﷺ) مستغیث بنوں گا۔‘‘

وقت اشاعت : 2023-08-30 14:01:40